Ibtidae ishq hai rota hai kya :Ghazal by Meer Taqi Meer (in Urdu)

۔ غزل ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ قافلے میں صبح کے اک شور ہے، یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا۔ سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں، تخم خواہش دل میں تو بوتا ہے کیا۔ یہ نشانِ عشق ہیں جاتے نہیں، داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا۔ غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز، میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا- میر تقی میرؔ نوٹ۔ میرؔ کے اصلی دیوان میں پہلا شعر کچھ بدلا ہوا ہے جو کہ نیچے دیا گیا ہے۔ لیکن اوپر غزل میں وہی شعر دیا گیا ہے جو لوگوں میں صدیوں سے مقبول ہے۔ یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ یہ تبدیلی اُنہونے بعد میں خود کی تھی يا کسی اور نے۔ راہ دور عشق میں روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ مشکل الفاظ: ☆ ابتدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروعات۔ ☆ قافلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مس...